چراغ پا ہونا محاورہ ہے اس کا مفہوم کیا ہے
چراغ پا ہونا محاورہ ہے اس کا مفہوم کیا ہے
Loading ExamHub...
چراغ پا ہونا محاورہ ہے اس کا مفہوم کیا ہے
Explanation
محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟
Explanation
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم ہے اڑجانا، غائب ہونا یا زائل ہونا
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غلام عباس کا پہلا افسانہ کونسا تھا
Explanation
غلام عباس نے ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو کےقلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسر۔چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔لام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔افسانوی مجموعےآنندی، 1948ء ،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء
“Ctrl + Down Arrow” Shortcut key is used in Ms Word to ____?
Explanation
“Ctrl + Up Arrow ” Shortcut key is used in Microsoft Word to move the cursor one paragraph up.
اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
Explanation
ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا۔ یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور پریم چند کی حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ زیادہ اولیت اور آراء پریم چند کے حق میں ہے۔
Explanation
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
Explanation
Ahmad Nadeem Qasmi born Ahmad Shah Awan was an Urdu language Pakistani poet, journalist. He wrote 50 books on topics such as poetry, fiction, criticism, journalism and art, and was a major figure in contemporary Urdu literature. Born : November 20, 1916, Angah Died: July 10, 2006
Explanation
Caliph Umar organized the army as a State department.
Explanation
سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
Explanation
یونانی
Explanation
محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے
Explanation
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم ہے اڑجانا، غائب ہونا یا زائل ہونا
Explanation
غلام عباس نے ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو کےقلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسر۔چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔لام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔افسانوی مجموعےآنندی، 1948ء ،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء
Explanation
“Ctrl + Up Arrow ” Shortcut key is used in Microsoft Word to move the cursor one paragraph up.
اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
Explanation
ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا۔ یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور پریم چند کی حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ زیادہ اولیت اور آراء پریم چند کے حق میں ہے۔
Explanation
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
Explanation
Ahmad Nadeem Qasmi born Ahmad Shah Awan was an Urdu language Pakistani poet, journalist. He wrote 50 books on topics such as poetry, fiction, criticism, journalism and art, and was a major figure in contemporary Urdu literature. Born : November 20, 1916, Angah Died: July 10, 2006
Explanation
Caliph Umar organized the army as a State department.
Explanation
سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
Explanation
یونانی
Explanation
محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے
Explanation
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم ہے اڑجانا، غائب ہونا یا زائل ہونا
Explanation
غلام عباس نے ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو کےقلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسر۔چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔لام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔افسانوی مجموعےآنندی، 1948ء ،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء
Explanation
“Ctrl + Up Arrow ” Shortcut key is used in Microsoft Word to move the cursor one paragraph up.
اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
Explanation
ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا۔ یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور پریم چند کی حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ زیادہ اولیت اور آراء پریم چند کے حق میں ہے۔
Explanation
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
Explanation
Ahmad Nadeem Qasmi born Ahmad Shah Awan was an Urdu language Pakistani poet, journalist. He wrote 50 books on topics such as poetry, fiction, criticism, journalism and art, and was a major figure in contemporary Urdu literature. Born : November 20, 1916, Angah Died: July 10, 2006
Explanation
Caliph Umar organized the army as a State department.
Explanation
سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
Explanation
یونانی
Explanation
محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے
Explanation
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم ہے اڑجانا، غائب ہونا یا زائل ہونا
Explanation
غلام عباس نے ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو کےقلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسر۔چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔لام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔افسانوی مجموعےآنندی، 1948ء ،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء
Explanation
“Ctrl + Up Arrow ” Shortcut key is used in Microsoft Word to move the cursor one paragraph up.
اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
Explanation
ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا۔ یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور پریم چند کی حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ زیادہ اولیت اور آراء پریم چند کے حق میں ہے۔
Explanation
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
Explanation
Ahmad Nadeem Qasmi born Ahmad Shah Awan was an Urdu language Pakistani poet, journalist. He wrote 50 books on topics such as poetry, fiction, criticism, journalism and art, and was a major figure in contemporary Urdu literature. Born : November 20, 1916, Angah Died: July 10, 2006
Explanation
Caliph Umar organized the army as a State department.
Explanation
سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
Explanation
یونانی
Explanation
محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے
Explanation
کافور ہونا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مفہوم ہے اڑجانا، غائب ہونا یا زائل ہونا
Explanation
غلام عباس نے ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ رسالہ ہزار داستان کے مدیر حکیم احمد شجاع پاشا کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے متعدد عالمی ادب کی اصناف کو اردو کےقلب میں ڈھالا۔ فی ہفتہ 5 روپے کے عوض ٹالسٹائی کے ناول The Long Exile کا اردو ترجمہ جلاوطن کے عنوان سے کیا۔ حکیم یوسف حسن کے رسالہ تازیانہ میں بھی تراجم اور کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور ادبی رسالوں میں ادب کے جوہر دکھاتے رہے۔ چند رسالوں کے نام جن کے لیے غلام عباس نے لکھا: رسالہ نیرنگ خیال،رسالہ ہمایوں،رسالہ سہیلی،رسالہ امرتسر۔چراغ حسن حسرت کے رسالہ شیرازہ میں اپنا مشہور افسانہ "جزیرہ سخنوراں" سال 1936 سے 1937 میں شائع کروایا۔ یہ افسانہ مشہور فرانسیسی طنز نگار "آندرے مورووا" کی تصنیف "ووژا اوپے ای دیزارتی کول" سے متاثر ہو کر لکھا۔لام عباس کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔افسانوی مجموعےآنندی، 1948ء ،جاڑے کی چاندنی، 1960ء،کن رس، 1969ء،رینگنے والے، 1980ء
Explanation
“Ctrl + Up Arrow ” Shortcut key is used in Microsoft Word to move the cursor one paragraph up.
اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟
Explanation
ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا۔ یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور پریم چند کی حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ زیادہ اولیت اور آراء پریم چند کے حق میں ہے۔
جاناں جاناں ، کس کا مجموعہ کلام ہے؟
Explanation
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں